O Abu Bakr and Ali were arrested by her attention to writing By Muhammad Rahim Aziz




 اے گرفتارِ ابو بکرؓ و علیؓ ہشیار باش تحریر :۔ محمد رحیم عزیزؔ



اقتدار کا نشہ بھی کیا غضب کی چیز ہے کہ افراد تو کیا جماعتوں کو بھی قرار پکڑنے نہیں دیتا ۔ اور پھر یہ کمبخت ایسا شیم پروف ہے کہ جن پر اس کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے ان کو بھی اپنے جیسا بنا دیتا ہے ۔ایسی جماعتیں اور ان سے وابستہ افراد خود بغیر ذبح کے اونٹ کو بغیر ڈکار لےئے ہضم کریں تو کریں دوسروں کے دسترخوں پر مرغابیاں دیکھ کر بھی کباب بنتے دکھائی دیتے ہیں ۔اول تو یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ مرکز میں جو پارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر فروکش ہوتی ہے وہی پارٹی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پر سرِ اقتدار آہی جاتی ہے۔ اور جب مرکز میں بر سرِ اقتدار پارٹی اپنے کےئے کی پاداش میں اپنی لحد آپ کھودتی ہے تو تب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تو وہ بر سر اقتدار پارٹی اپنے اقتدار کی میّت پر غسل دےئے بغیر چہار تکبیریں پڑھ لیتی ہے۔ اور جب بینظیر کا خون اپنے قاتل کی تلاش میں قصرِ صدارت کی راہداریوں سے چمٹ چمٹ جانے لگا تھا تو ان ہی کے خون کے صدقے میں ملنے والے اقتدار کا سورج دور افق کی پہنائیوں میں کچھ اس شان سے ڈوبا تھا کہ بارے دیگر مرکز کے آسمان پر طلوع ہونا نصیب نہ ہوا ۔ تب گلگت بلتستان میں مہدی شاہ حکومت بھی اپنے کرپشن کے تابوت کو اپنے ہی کاندھے پر اٹھائے سوئے قبرستان جانے کی تیاری مکمل کر چکی تھی ۔یوں نئے انتخابات میں صرف اور صرف ایک سیٹ لوح مزار کی صورت ان کے ہاتھ لگی ہے ۔ 


مگر ایک ڈیڑھ سالہ کیفیتِ سکرات پر سے گزرنے کے بعد گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی نے فرقہ ورانہ عصبیت کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کے لےئے یکم نومبر کو یومِ آزادیِ گلگت بلتستان کے موقعے پر ایک جلسے کا انعقاد کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حفیظ الرحمان کی حکومت ناکام ہو چکی ہے اور اب عوام پیپلز پارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ پھر یہ کہنا کہ حفیظ گلگت بلتستان میں طالبان طرز کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ۔اگر مہدی شاہ حکومت کی کرپشن کو ختم کرنا ،مہدی شاہ حکومت کے گلگت بلتستان میں پھیلائے گئے فرقہ ورانہ قاتل و غارت گری پر قابو پانا اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو 1988 سے قبل کی حالت پر دوبارہ بحال کرنا اگر طالبان طرز حکومت ہے تو کون کافر اس پر صدقے نہ جائے ۔یا پھر یہ کہنا کہ حفیظ صوفی محمد کی طرز پر حکومت چلانا چاہتے ہیں ۔۔یہ گھسے پیٹے ا لزامات لگا کر آپ جن حلقوں کو خوش کرانا چاہتے وہ آپ کی سوچ اور نقطہٗ نظر کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔موجودہ حکومت اگر صوفی محمد نہیں کسی اور کی طرز پر ہو کر بھی امن و امان قائم کرے تو ہزار غنیمت ہے ۔

ہر سیاسی پارٹی کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومتِ وقت پر تنقید کرے اور حکومتی اقدامات پر گہری تنقیدی نظر رکھے ۔جہاں یہ حکومت ٹھوکر کھائے وہاں اسے خبردار کر دے اور اسے صراط مستقیم سے ادھر ادھر بھٹکنے نہ دے ۔اگر حکومت مخالف کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن کی حیثیت سے یہ رول ادا کرے تو کیوں کسی کے پیٹ میں مروڑ اٹھے ۔ بخدا ! ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلم لییگی حکومت کوئی زم زم کی دھلی ہوئی ہے ۔لیکن اس حکومت کے اقدامات پر طالبان طرز حکومت کی پھبتیاں کس کر کس کو کیا پیغام دینا مقصود ہے ۔بس کروڑ کا سوال یہی ہے ۔ شروع شروع میں انہی حلقوں کی طرف سے پانچ دفعہ رمضان شریف میں قرآن سنانے والے حفیظ الرحمان کے خلاف یہ پروپگینڈا کیا جاتا رہا کہ وہ تو حافظ قرآن ہے ہی نہیں ۔کسی مدرسے سے جالی سند لی ہوئی ہے ۔کبھی مولوی کی پھبتیاں کسی گئیں ۔کسی سیاسی پارٹی کو ایسے چھچھورے الزامات لگانا زیب نہیں دیتا ۔ہم افغانستان میں طالبان کی چھ سالہ حکومت کو عصر حاضر میں کسی بھی اسلامی ملک میں موجود حکومت سے ہزار درجہ بہتر سمجھتے ہیں ۔کاش کہ ایسی حکومت گلگت بلتستان تو کیا خود پاکستان کے نصیب میں ہوتی تو کیا کہنے ۔ پیپلز پارٹی کو خاطر جمع رکھنا چاہےئے ۔اگر مرکز میں ان کی پارٹی اگلے انتخابات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو گلگت بلتستان میں بھی اگلی حکومت آپ ہی کی ہو گی ۔ویسے بھی اس وقت مسلم لیگ گلگت بلتستان کے کئی اراکینِ اسمبلی اور وزرا بھی آپ ہی کی زبان بول رہے ۔انہیں تو ہواکا رخ دیکھ کر آپ کی طرف پلٹ آنے میں کونسا وقت لگے گا ۔ چونکہ اب تک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں انہی پارٹیوں کی حکومت بنتی ہے جن کی مرکز میں حکومت ہو ۔

رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا بھی ہر سیاسی پارٹی کو حق حاصل ہے مگر یہ کام اگر عصبیتوں کو ابھار کر کیا جائے تو ناقابلِ ہضم ہوتا ہے ۔یکم نومبر کو دنیور میں جلسے کے بعد یومِ حسین کے حوالے سے ایک نان ایشو کو ایشو بنا کے KKHپر آج کئے دنوں سے دھرنا دئے بیٹھنا کئے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ اور جب ایک سیاسی پارٹی ایک فرقہ ورانہ قضیے میں کسی ایک فریق کی ببانگِ دھل حمایت کرے تو پھر کئی سوالات جنم لیتے ہیں ۔اور جب اسی طرح کے الزامات آپ مسلم لیگی حکومت پر لگائیں تو آپ کو بھی مخاطب کر کے کہا جا سکتا ہے کہ دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ *
اب تو یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ ہم کہیں نادانستہ طور پر کسی کے منفی عزائیم کی تکمیل میں مددگار تو نہیں بن رہے ۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دشمن ہمیں آپس میں دست وگریباں کرنے کے لئیے اپنے تمام تر ابلیسی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ۔ بخدا ! بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اس جلسے کے بعد پیپلز پارٹی کی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے ۔ اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔ تاہم ہم دست بدستہ یہ عرض کرے نگے کہ خدا کے لےئے جو امن اخوت اور بھائی چارے کا ماحول گذشتہ ایک ڈیڑھ سال سے دیکھنے میں آ رہا اسے کسی طور آنچ آنے نہ دیا جائے ۔
گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے بھی بعض مسلم لیگی اور پیپلز پارٹی کے اراکین کا نقطہٗ نظر اس قدر غیر منطقی ہے کہ کسی صورت وفاق اور مقتدر حلقوں کو قابلِ قبول نہیں ۔وفاقی حکومت کا دماغ خراب نہیں ہوا کہ گلگت بلتستان جو کہ مسلہٗ کشمیر سے جڑا ایک متنازعہ خطہ ہے اسے اپنا آئینی حصہ بنا کے سلامتی کونسل میں اپنے موقف کو کمزور کرے ۔میں نے اپنے گذشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ کوئی پتھر سے لاکھ سر ٹکرائے گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا جب تک سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق مسلہٗ کشمیر کا کوئی حل نہیں نکلتا ۔ہاں بہتر سے بہتر اندرونی خودمختاری کا مطالبہ کرنے میں سب حق بجانب ہونگے ۔ گلگت بلتستان کے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کی حب الوطنی پر کوئی کسی قسم کا شک نہیں کر سکتا ۔لیکن جب سی پیک کے حوالے سے ایسی باتیں کی جائیں جو امریکہ ،انڈیا اور ان کے حوارین کی زبان پر تو سجتی ہیں مگر کسی پاکستانی یا گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کی زبان پر بالکل بھی نہیں سجتیں ۔ تب دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ آخر کیوں ہم اپنے دشمن کی زبان بولنے لگیں ۔ آخری بات یہ کہ دشمن قیامت کی چال چلنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے تو اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؓ ہوشیار باش ۔ 

Post a Comment

1 Comments

  1. eToro صفقات التداول المفتوحة في 227,585,248

    تداول من أي مكان وقتك ثمين. تداول من خلال الكمبيوتر أو الجوال أو الكمبيوتر اللوحي

    ReplyDelete