Shaheed Ki Mout After the death of the Survival

دامانِ خیال شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے تحریر :۔ 
محمد رحیم عزیزؔ 

امسال 14اگست کو یومِ آزادیِ ملک خداداد پاکستان کی مناسبت سے گھڑی باغ گلگت میں جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے زیرِ انصرام ایک’’ عزم آزادیِ کشمیر کانفرنس ‘‘کا انعقاد کیا گیا تھا جسم میں امیرِ جماعت اسلامی محترم سراج الحق صاحب نے خصوصی شرکت فرمائی تھی ۔یہ کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں غلام احمد وانی کی شہادت کے بعد وہاں اٹھنے والی تحریک آزادی کے لہو بار و مشک بار جزبوں کے سائے تلے منعقد کی گئی تھی ۔اس کانفرنس کے اپنے افتتاحی و استقبالی خطام میں میں محترم امیرِ جماعت اسلامی گلگت بلتستان جناب مولانا محمد سمیع نے حکومتِ پاکستان کے سوئے ہی نہیں بلکہ مردہ پڑے جذبوں کو جھنجھوڑتے ہوئے اور قم باذن اللہ کی مسیحائی صور پھونکتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ میں حکومت پاکستان کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ آج 14اگست کے اس مبارک دن میں اہلِ پاکستان کے گھروں میں اس قدر پاکستانی ہلالی پرچم نہیں لہرا رہے جس قدر یہ ہلالی پرچم گلگت بلتستان کی قبرستانوں میں پاک فوج کی جرائت و ہمت اور ملک و قوم کے لےئے جان نثاری کے جذبوں کے تحت ان شہیدوں کی قبروں پر لہرا رہے جو یا تو معرکہء کارگل میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں یا تو آپریشن ضربِ عضب میں ملک اور ملت پر جان لٹا چکے ہیں ۔‘‘ چند ہی دن پہلے جب 23نومبر کو آزاد کشمیر کنٹرول لائین پر تتہ پانی کے مقام پر پاک آرمی کی 8 NLIرجمنٹ کے کپٹن تیمور علی خان کی اپنے دو ساتھیوں گانچھے سے حوالدار مشتاق حسین اور غذر یاسین سے لانس نائیک غلام حسین سمیت انڈین آرمی کی طرف سے بلا اشتعال گولہ باری کا منہ توڈ جواب دیتے ہوئے شہید ہونے کی خبر ملی تو ابھی میری نظروں کے سامنے عزیزم تیمور علی کا ہیولا گھوماہی تھا چونکہ وہ 19نومبر کو ہی گھر سے نکلے تھے کہ میرے اشہب خیال نے مجھے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی خون سے تر گلاب گلاب لاشوں کے درمیان کھڑا کر دیا اور میں زبان حال سے پکارنے لگا تھا کہ ؂

سو میرے غنیم نہ بھول تو کہ ستم کی شب کو زوال ہے * ترا ظلم و جبر بلا سہی میرا حوصلہ بھی کمال ہے 
تجھے مان جوشن و گرز پر مجھے ناز زخمِ بدن پہ ہے * یہی نامہ بر ہے بہار کا جو گلاب میرے کفن پہ ہے 
اور جب میرا راکبِ خیال سوئے خانہ لوٹ رہا تھا تو مجھے محترم مولانا سمیع کی تقریر کا مذکورہ اقتباس بے طرح یاد آیا ۔اس لئے کہ آج گلگت بلتستان کی قبرستانوں میں تین اور سبز ہلالی پرچموں کا اضافہ اس دھرتی کی مانگ میں بھری سیندور کی رنگت کو دو آتشہ بنا رہا تھا ۔کیا ہی خوب کہا گیا ہے کہ ’’ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ‘‘
کپٹین تیمور علی خان ڈسٹرکٹ استور کی مردم خیز زمین ڈوئیاں سے میرے ننھیالی اور سسرالی قبیلے ’’ دودھے‘‘ فیملی سے تعلق رکھنے کی بنا جہاں بیک وقت میرا بھانجا بھی اور بھتیجا بھی لگتا تو وہاں میرے بچوں کا سگا خالہ زاد بھائی بھی لگتا تھا ۔یہاں اس قدر ذکر کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اپنے ایک مرحوم ماموں مولانا محمد رضا کہ جن کا ایک فرزند عزیزم عبد الرشید اس وقت گلگت میں چیف انجینیر کے عہدے پر فائز ہیں کی فہمائش ہی نہیں بلکہ آرڑر کی تابعداری میں ، میں نے مذکورہ دودھے فیملی کی تاریخ کو صفحہء قرطاس پر محفوظ کرنے کے لےئے لکھا تھا ۔ اور بعض بہی خواہوں کی مشاورت سے اسے کتابی شکل دینے سے پہلے ایک مقامی اخبار ’’ ہفت روزہ چٹان ‘‘میں قسط وار شائع بھی کر چکا تھا ۔مگر میں نے بوجوہ اسے شائع کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔کپٹن تیمور کی یہ بڑی خواہش تھی کہ میں اس کتاب کو شائع کرنے کا احتمام کروں ۔میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ مجھے اس کتاب کے شائع کرنے میں اب کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔تاہم وہ اسے خود شائع کرنا چاہتے تھے ۔مگر انہوں نے اپنے خاندان کی تاریخ کو محفوظ کرنے سے زیادہ ،جلد شہادت کے مرتبے پر فائز ہونا ضروری سمجھا ۔اب خدا جانے ایسا سجیلا اور بہادر جوان اس خاندان میں بارے دیگر پیدا ہو نہ ہو ۔گو اس امر میں بھی شک نہیں کہ جنگل شیر سے خالی کبھی نہیں ہوتا ۔
1991میں پیدا ہونے والے کپٹن تیمور علی خان شہید نے پرائمری تک تعلیم گلگت میں تعمیرِ نو پبلک سکول سے حاصل کی تھی ۔یہ سکول بعد میں مشرف بہ جماعت اسلامی ہو کر ریڈ فاؤنڈیشن نام پایا تھا ۔ایف ایس سی تک تعلیم پبلک سکول اینڈ کالج گلگت سے حاصل کی تھی ۔انہوں نے 23اپریل2009کو انہوں نے ملٹری اکیڈمی کاکول جوائن کیا تھا ۔وہاں سے 29اپریل 2011کو پاس آؤٹ ہو کر منگلا بیس میں متئین پاک آرمی میں سکینڈ لیفٹننٹ کے عہدے پر تعینات ہوئے ۔ ان کا تعلق 8 NLIرجمنٹ سے تھا ۔بعد ازاں ان کی پوسٹنگ کوئٹہ عمل میں آئی تھی ۔ وہاں دو سال تک مختلف ٹریننگز میں گزارنے کے بعد وانا شمالی وزیرستان میں ان کی پوسٹنگ ہوئی ۔جہاں بقول خود ان کے کئی دفعہ موت ان کے پہلو سے پہلو بچا کے نکل گئی تھی ۔ان دنوں جب یہ چھٹی پر گھر آتے تو میں اپنی افتادِ طبع کے زیرِ اثر اور کسی حد تک ضرب عضب کے حوالے سے ایک خاص نقطء نظر رکھنے کے، ا ن سے شمالی وزیرستان کے میدانِ جنگ کے احوال پوچھتا ۔تب یہ اپنی ٹھیٹ فوجی زبان میں مزے لے لے کے جنگ کا احوال بتاتے ۔مجھے یوں لگتا کہ پتھرکے اس کچی عمر کے نوجوان کو خوف نام کی چیز کبھی چھو کے بھی نہیں گزری ۔میرے ہوں ! ہاں! پر کڑک کے کہتے کہ’’ ماموں ! مرنے مارنے کے لےئے تو فوج میں گئے ہیں تو خوف اور ڈر کاہے کو ‘‘۔ مجھے جنرل ضیا الحق اور جنرل حمید گل سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے اس لےئے کہ انہی دو اشخاص نے عالمِ اسلام میں جذبہ جہاد کے خشک ہوتے سوتوں کو پھر سے نشاط ثانیہ بخش دی ہے اور اسی وجہ سے پاک فوج کے ساتھ محبت کا ہونا ایک فطری امر ہے ۔تاہم جنرل مشرف کے دور میں اس محبت اور لگاؤ میں ضرور کمی آئی تھی ۔مگر اس کمی کو بگرام میں امریکی ائیر بیس پر ان کے کئی اعلی ایجنٹوں کا ان ہی کے ایک مسلمان افغان ساتھی کے ہاتھو ں موت کے گھاٹ اتارے جانے پر امریکی صدر جارج بش کے یہ کہنے پر کہ مشرف ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے ۔اس سے میری کم ہوتی ہوئی محبت دوبارہ جانب عروج گامزن ہوئی ہے ۔میں شہید تیمور کو مزے لے لے کر نبی پاک کی پیشن گوئیاں سناتا ۔اور بالخصوص غزوہء ہند والی پیشن گوئی کے تذکرے کے ساتھ ان کو مبارک باد بھی دیتا کہ تم اس فوج کا حصہ بنے ہو کہ جس نے اس مقدس جنگ کو لڑنا ہے اور انہی کے سبب سے اسلام کو فتحیاب ہونا ہے ۔ اس پر انہوں نے ایک دفعہ یہ بھی کہا تھا کہ کہ ماموں ! ہم کہاں اس وقت تک زندہ رہ کر اس جنگ کا حصہ بن پائے نگے ۔میں کہتا اور برملا کہتا کہ وہ جنگ تو بس قریب آ لگی ہے ۔یہ ہندو بنیا جانتا ہے کہ مسلمانوں کے نبی کی پیشن گوئی نے پورا ہو کے رہنا ہے اس لئے تو وہ اس قریب آ لگی جنگ کو مختلف حیلوں اور بہانوں پچھے دھکیل رہا ۔ جس میں خود ہمارے نا اہل حکمران بھی اپنے اپنے وقتوں میں اس کی اس خواہش کی تکمیل میں مددگار بنتے آ رہے ہیں ۔مختلف اوقات میں سرحد کی یہ چھیڑ خانیاں اس خوف ہی کے زیرِ اثر ہیں ۔ آزادیِ کشمیر کی جو تازہ لہر مظفر وانی نے اپنے خون سے دوڑا دی ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے غزوہء ہند کے بپا ہونے میں زیادہ سے زیادہ بیس سال کا عرصہ لگتا نظر آتا رہا ہے ۔اگر بیس سال تک میں زندہ رہا اور یہ جنگ بپا نہ ہوئی تو میں بھی حضرت مولانا ڈاکٹر اسراراحمد مرحوم کی طرح بہ آسانی قیافے کے غلط ہو سکنے کی رعایت سے استفادہ کر سکتا ہوں ۔جس کا انہوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد یہ کہ کر کی تھی کہ’’ اب امام مہدی کے ظہور میں دس سے پندرہ سال لگ سکتے ہیں‘‘ ۔سقوط کابل کے بعد جب ان سے ان کی رائے کے حوالے سے پوچھا گیا تو حضرت نے فرفایا تھا اور بجا فرمایا تھا کہ یہ تو ایک انسانی قیافہ ہے غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ بحر حال غزوہء ہند جلد ہو یا بدیر پاک فوج کے اس جری کپٹن نے شہادت کی مہندی ہاتھوں پہ سجانے میں ہماری توقعات سے زیادہ جلدی کی ۔ تاہم یہ امر انتہائی خوشکن ہے کہ اسی غنیم سے لڑتے ہوئے انہوں نے شہادت کا رتبہ پایا کہ جن کے ساتھ غزوہء ہند میں لڑتے ہوئے شہید ہونے کی جوت میں نے ان کے دل میں جگائی تھی ۔ 
میں نے ایک دفع اپنی ڈائری سے ان کو ایک مجاہد کی زبانی کہی گئی ایک نظم کے یہ اشعار سنا کر انہیں تڑپا دیا تھا ۔کیا خبر کہ زخمی ہوتے وقت انہیں بھی یہ اشعار یاد آئے ہوں ؂
میرے تن کے زخم ابھی نہ گن میری آنکھ میں ابھی نور ہے * میرے بازوؤں پہ نگاہ کر جو غرور تھا وہ غرور ہے 
مجھے دیکھ قبضہٗ تیغ پر ابھی میرے کف کی گرفت ہے * بڑا منتقیم ہے میرا لہو یہ میرے نسب کی سرشت ہے 
میں اسی قبیلے کا فرد ہوں جو حریف سیلِ بلا رہا * اسے مر گ زار کا خوف کیا جو کفن بدوش سدا رہا 
تاہم ان کے ساتھی زخمی ہونے والے لالک جان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے کپٹن زاہد کا کہنا تھا کہ ’’جب ہم زخمی ہوئے اور میں دیکھتا کہ کپٹن تیمور آنکھیں بند کرنے لگتے تو میں کہتا کہ سر آپ ہمت کریں ۔ آپ اگر آنکھیں بند کر لیتے ہیں تو ہما را بھی دل ڈوبنے لگتا ہے ‘‘۔تب بقول ان کے انہوں نے آنکھ کھول کے کہا تھا کہ’’ میرے بھائی میرے دوست !میں تو بچ نہیں سکتا البتہ میری بہنوں تک یہ پیغام دو پہنچا دو کہ ہماری ماں بیمار ہے وہ ان کا خاص خیال رکھیں ‘‘۔ کپٹن زاہد کا مزید کہنا تھا کہ ’’ اسکے بعد ہم کو بھی کلمہ پڑھنے کی تلقین کی اور خود بھی کلمہ پڑھتے ہوئے جانِ جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ‘‘جب یہ باتیں مجھے سنائے گئیں تو میں بے اختیار پکار اٹھا تھا ؂
آہ ! اے تیمور تو کیوں اس قدر جلدی میں تھا * تو مثالِ مشک ازفیر پھیلتا کچھ اور دن 
شوق دھرتی کو لہو سے سینچنے کا واہ !و اہ! * گلشنِ ’’ دودھی ‘‘ میں ہائے کھیلتا کچھ اور دن 

Post a Comment

0 Comments