Gilgit Baltistan Independence Day By Muhammad Rahim Aziz


بہ ایں ہمہ تکمیلِ پاکستان کا وہ خواب ہنوز تشنہ لب ہے تاہم جس قدر بھی خونِ شہیداں رنگ لایا ہے بسا غنیمت ہے ۔ آزادی کی قدر ان سے پوچھاجائے جنہوں نے غلامی کے دن اور غلامی کی راتیں دیکھی ہوں ۔میں مشت نمونے از خروارے ایک روایت پر اکتفا کرتا ہوں جس سے اندازہ ہو گا کہ آج باوجود روز آئینی حقوق سے محرومی کی مالا چبنے کے ہم کس قدر خوش نصیب ہیں ۔

اپنے کسی بزرگ سے غلامی کے ان ایام سے وابستہ دل ہلا دینے والی ایک روئیداد کی اجمال کچھ اس طرح سے سنی ہے کہ جب انگریز وں کو گلگت سے کشمیر جانا ہوتا تو ان کے کتوں کو ڈولی میں بیٹھا کرلوگ اپنے کندھوں پر اٹھا کے اپنی اپنی مقررہ منزل تک پہنچاتے ۔ گلگت سے جن کی باری لگتی وہ مناور تک پہنچاتے اور مناور والے پڑی تک پڑی والے موجودہ عالم بریج تک اور وہاں سے سئی جگلوٹ ڈموٹ والے بونجی تک پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے۔ یو ں کشمیر تک ہر گاؤں سے لوگ ان کتوں والی ڈولیوں کو اپنے اپنے پڑاؤ تک پہنچانے پر مامور ہوتے ۔ بقول اس بزرگ کے ’’ ہمارے کندھوں پر ڈولی میں پڑے کتے پیشاب کرتے اور وہ پیشاب ہمارے کندھوں پر سے گزرتا مگر ہمیں اف کرنے کا یارا نہ تھا ۔ ‘‘ میں سمجھتا ہوں اگر کسی کے دماغ میں تھوڑا سا بھی بھیجا سلامت ہے تو اس ایک واقعے کے تذکرے سے موجودہ آزادی کی قدرو قیمت کا بخوبی اندازہ ہو گا ۔ اب جہاں تک اس خطے کا پاکستان کا آئینی حصہ بننے کی بات ہے تو میرا وجدان مجھے خبر دیتا ہے کہ اب وہ دن بھی دور نہیں ۔ نبیِ مہربان کی غزوہٗ ہند والی پیشن گوئی کے پورا ہونے کے بھی دن قریب آ لگے ہیں ۔ یوں میں خود بھی اگر یوں گنگناؤں تو کیا عجب ۔

 
اس بشارت کو نہ سمجھو ایک دل خوش کن قیاس * جس کو سن کر ہر مسلماں شادماں ہو جائے گا 
سچ ہے میرا حرف حرف جن کو اس میں شک ہے آج * دیکھ لینا کل میرا    
 داستاں ہو جائےگا 

Post a Comment

1 Comments

  1. eToro صفقات التداول المفتوحة في 227,585,248

    انضم إلى مسيرة النجاح اتصل بأكثر من 4 ملايين متداول ومستثمر من 170 دولة

    ReplyDelete